ناروے کے پارلمانی انتخابات کا عمل آج پیر کو مکمل ہورہاہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں نے نارویجن کے علاوہ، کچھ پاکستانی اور دیگر غیر ملکی پس منظر رکھنے والے امیدوار بھی متعارف کروائے ہیں۔
ناروے کی لیبرپارٹی سے وابستہ سیاستدان اور رکن اوسلوپارلیمنٹ ڈاکٹر مبشر بنارس اور اوسلو کے علاوہ ہالے رود کے پارٹی بورڈ کے رکن چوہدری غلام سرور کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو امید ہے کہ وہ دیگر پارٹیوں سے مل کر حکومت بنائے گی جبکہ ہورے پارٹی کے لوگ بھی اسی طرح کی امید رکھتے ہیں کہ دیگر پارٹیوں سے مل کر وہ اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
ناروے کی پارلیمنٹ کی ۱۶۹ نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں نے پورے ملک میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ بعض نارویجن پاکستانی سیاستاندانوں کی پارلیمنٹ تک جانے کی کامیابی یقینی ہے۔ مثال کے طور ان میں لیبرپارٹی سے ھادیہ تاجیک، لبرل پارٹی سے عابد راجہ اور مدثر حسین کپور قابل ذکر ہیں جو پہلے بھی رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈٓاکٹر ٹینا شگفتہ لبرل پارٹی، عائشہ ناز بھٹی، محمد ناصر دیگرپارٹیوں کے امیدوار ہیں جو پہلے دفعہ نبردآزمائی کررہے ہیں۔ ناروے کے انتخابات کے حوالے سے ایک بات سامنےآئی ہے کہ پاکستانیوں کا ووٹ منقسم ہے۔
پاکستانی تجزیہ کار اور مصنف شاہ رخ سہیل کہتے ہیں، ناروے میں پاکستانی متحڈ ہوکر اپنے جائز مطالبات منوا سکتے ہیں۔ ان کا منقسم ووٹ ان کی اہمیت کو کم کردیتاہے۔
ووٹنگ کا عمل آج صبح نو بجے سے شام نو بجے تک جاری رہے گا جس کے بعد نتائج آنا شروع ہوجائیں گے۔اس بارحکمران اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہورے پارٹی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت لیبرپارٹی کے مابین سخت مقابلہ ہے۔ اگرچہ کچھ جائزوں میں ہورے پارٹی ایک بارپھر وزارت عظمیٰ برقرار رکھتے ہوئے نظرآتی ہیں لیکن بعض دیگر سروے میں لیبرپارٹی کے سربراہ یونس گاھرستورے وزیراعظم بنتے نظرآتے ہیں۔
ان دوبڑی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی پارٹیاں ترقی پسند سخت گیرجماعت ایف آر پی، سنٹرپارٹی، کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی، لبرل پارٹی، بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی، گرین پارٹی اور ریڈ پارٹی بھی انتخابی عمل میں پیش پیش ہیں۔